Type Here to Get Search Results !

سرگوشی کے سائے

ایک خاموش رات کے آخر میں، عاصم نے خود کو اپنے خاندان کے پرانے دیہی گھر میں اکیلا پایا۔ بجلی گھنٹوں پہلے چلی گئی تھی، گھر کو چاندنی میں نہا کر بے چین کر دینے والی خاموشی چھا گئی۔ باہر درختوں کے سائے لکڑی کے فرش کے تختوں پر لمبے لمبے پھیلے ہوئے تھے، مڑتے اور ہوا کے ساتھ جھوم رہے تھے۔ عاصم گھر کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں سن کر بڑا ہوا تھا۔ اس کی دادی نے ہمیشہ اصرار کیا کہ یہ ملعون زمین پر بنایا گیا تھا، لیکن اس نے اسے ہنسایا۔ تاہم، آج رات مختلف محسوس ہوئی۔ جب وہ موم بتیوں کے لیے درازوں میں گھس رہا تھا تو اس نے ایک ہلکی سی سرگوشی سنی۔ پہلے تو اس نے اسے ہوا کہہ کر مسترد کر دیا۔ لیکن پھر یہ دوبارہ آیا — نرم، جان بوجھ کر، اور قریب۔ اس کا نام۔ "عاصم... عاصم..." اس کا دل دھڑکا۔ اس نے ادھر ادھر گھوما مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ اچانک، ہوا ٹھنڈی ہو گئی، اور سرگوشی بے ہوش، خوفناک قہقہوں میں بدل گئی۔ باہر کی ہوا تھمنے کے باوجود دیواروں پر سائے ہلتے دکھائی دے رہے تھے۔ گھبراہٹ میں، عاصم نے ٹھوکریں کھاتے ہوئے سیڑھیوں سے نیچے جانے کا عزم کیا۔ لیکن جیسے ہی وہ سامنے والے دروازے تک پہنچا، اس نے ہلنے سے انکار کر دیا، جیسے نادیدہ ہاتھوں نے اسے بند کر رکھا ہو۔ شیشے کے عکس میں اس نے اپنے پیچھے درجنوں سایہ دار ہستیاں کھڑی دیکھی، ان کی کھوکھلی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.